۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
استاد شیخ یعقوب بشوی

حوزہ/ رمضان المبارک کی مناسبت سے ، حجت الاسلام و المسلمین استاد شیخ یعقوب بشوی کے قرآنیات پر روزانہ درس بعنوان"قرآن کریم؛معاشرتی مشکلات اور ان کا حل"حرم مطہر حضرت فاطمہ معصومہ(س)سے براہ راست نشر کیا جارہا ہے۔جسے ہم اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، استاد شیخ یعقوب بشوی کے سولہواں درس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:

بسم الله الرحمن الرحیم

قال الله تبارک وتعالی:"وَأَنْفِقُوآ مِنْ ما رَزَقْناکُمْ"
کیا اسلام کے پاس اپنا کوئی  اقتصادی نظام ہے؟
کسی بھی معاشرے میں ایک معاشی اور معیشتی نظام کا ہونا ضروری ہے، جس طرح  سرمایہ داری کا نظام  ہے۔
 اس سوال کے جواب کو ہم قرآن سے دینے کی کوشش کریں گے۔
پہلی بات یہ ہے کہ اسلام کے پاس جو اقتصادی نظام ہے وہ دنیا میں کسی سسٹمز کے پاس نہیں ہے آپ کوئی بھی مکتب لیں،کوئی بھی نظام لیں،وہ نظام سرمایہ داری کا ہو یا سوشلزم کا ہو یا کمیونسٹ کا ہو جو بھی نظام ہو ان سب کا اقتصادی نظام، سود پر مبنی ہے۔

اسلام اس نظام کی شدت سے مخالفت کرتا ہےاور اسلام کے نزدیک،"وَأَحَلَّ اللّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا؛خرید وفروش کو تو حلال قرار دیا ہے لیکن رباء(سود)کو حرام قرار دیا ہے اس لئے کہ رباء کی بنیاد ایک طبقاتی نظام پر ہے  جس طرح اسلام سے پہلے بھی عرب کے ماحول میں وہی ربوی نظام تھا اس وجہ سے اسلام نے اس نظام کا مقابلہ کیا اور اس نظام کو مٹانے کیلئے اسلام آیا ہے، اسلام نے کہا کہ یہ نظام جائز نہیں ہے حرام ہے اس کے مقابلے میں اسلام نے کہا:"حَقُ اللّهُ الْرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ." ربا کو مٹانے والا خود اللہ ہے اور اللہ کا نظام اس مالیاتی نظام کو مٹانے آیا ہے جو کہ ربوی ہے۔
اس نظام میں ضرورتوں کو پورا کرنے کےلئے آپ کو پیسہ دیا جاتا ہے ، لیکن جب آپ اس کو پیسہ واپس کر رہے ہوں توآپ کو اضافی پیسہ دینا پڑتا ہے تو آپ کی معیشت بحال تو نہیں ہوئی بلکہ معیشت پہ کاری ضرب لگی اور نتیجہ کے طور پر معیشت کمزور سے کمزور ہوتی جائے گی اس وجہ سے اسلام نے جو پہلا نظام قائم کیا اس نظام کے مقابلے میں، وہ نظام صدقہ ہے یمحق اللہ الرباء ویربی الصدقات یہاں پر یمحق یعنی مٹانا نابود کرنا بلکل اجڑ سے اکھاڑنا تو خدا سود کے نظام کو جڑ سے اکھاڑتا ہے اس کے مقابلے میں صدقے کے نظام کی معرفی کی یہاں پر لفظ یربی، قابل توجہ ہے یمحق اور یربی مضارع کا صیغہ ہے یہ حال اور مضارع دونوں کو شامل ہے ایک نظام کو مسلسل مٹا رہا ہے اور دوسرے نظام کی پرورش مسلسل خدا کر رہا ہے جس نظام کو خدا مسلسل مٹا رہا ہے وہ ہے سود کا نظام وہ ہے ظالمانہ نظام جس کی وجہ سے معاشرے میں طبقاتی نظام وجود میں آتا ہے اور جس نظام سے طبقاتی نظام ختم ہوجائے بلکہ معاشرے میں ایک عادل سماج کا قیام عمل میں آئے تو پروردگار عالم خود اسکی پرورش فرماتا ہے کہ صدقات کی پرورش اور صدقات کو رشد اور صدقات کو آگے بڑھانے والا خود اللہ ہے اسی وجہ سے روایتوں میں آیا ہے کہ اگر بندہ ایک کھجور کا دانہ برابر بھی راہ الہی میں صدقہ دے تو پروردگاعالم خود اس صدقہ کی پرورش کرے گا جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ یہ رشد وپرورش عموما ان چیزوں کےلئے متصور ہے کہ جن کے حجم بڑھ جائے مثال کے طور پر ایک دانہ جب ہم زمین میں بوتے ہیں  اسکی پرورش کریں گے تو وہ دانہ درخت کی صورت میں ہمیں نظر آئے گا یعنی ایک دانہ اتنا چھوٹا کہ کبھی ہماری نگاہوں میں نہ آئے لیکن وہی دانہ زمین میں جانے کے بعد اس کی جب پرورش ہوتی ہے تو وہ پودے کی شکل میں نکلے اور اس کے پتے،پھل، تنے،شاخیں، جڑ دیکھ کر  ہمیں تعجب ہوگا کہ جو دانہ نظر بھی نہیں آتا تھا  لیکن اب اتنا بڑا درخت کی صورت میں نظر آرہا ہے اس لئے کہ کسان نے اس دانے کی پرورش کی اسے پانی دیا اسے کٹنے نہ دیا اسے خشک ہونے نہ دیا اسے کسی چور کے ہاتھوں میں جانے نہ دیا یعنی اس قدر کوشش کی اب وہی دانہ اس کی تربیت اس کی زحمتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ایک بڑا درخت کی صورت میں سایہ اور پھل دے رہا ہے آپ اس کے پتے سے اس کی شاخوں سے اور اس کے پورے وجود سے استفادہ کریں گے تو اسی طرح پروردگا عالم کا کرم ہے کہ ایک خورما کے دانہ بھی اگر راہ الہی میں دے اگر بعنوان صدقہ دے تو اس صدقے کو پروردگار اتنا رشد دے اور اسکی پرورش کرے کہ وہی ایک دانہ پہاڑ جیسا بن جائے گا  پروردگار قیامت کے دن ثواب دے گا اور اس صدقے کو پروردگار پال رہا ہے تو ہم ظاہری طور پر اسکو حقیر سمجھتے ہیں لیکن یہ اس قدر بابرکت شیء ہے کہ صاحب صدقہ کو قیامت کے دن یہ ہر قسم کے عذاب سے بچانے کےلئے کافی ہے یہ ایک دانہ قیامت کے دن ایک بڑا پہاڑ بن کے آجائے تو پروردگار عالم سود کے مقابلے میں اس صدقے کی معرفی فرما رہا ہے اور نظام صدقہ ایک ایسا نظام ہے کہ معاشرے سے غربت کو ختم کرے آج ہمارا مسلمان معاشرہ ہو یا کافر معاشرہ ہو، غربت دونوں معاشرے میں عام ہے اگر صدقے کا نظام اس دنیا میں رائج ہو جائے تو کوئی محتاج اور ضرورتمند باقی نہیں رہے گا چونکہ صدقہ محتاج کو دیا جاتا ہے اب صدقہ یا آپ مانگنے والے کو دے یا آپ کو غریب و مسکین نظر آئے تو اسکو دے تو جب آپ صدقہ انکو دیں گے تو انکی نیاز پوری ہوجائے جب ضرورت پوری ہو جائے تو خودبخود معاشرے میں بیلنس برابر ہوجائے امیر اور غریب کا بیلنس جب برابر ہوجائے تو طبقاتی نظام جڑ سے اکھڑ جائے آج اس نظام سے ہم سب پریشان ہے آج پوری دنیا طبقاتی نظام کے شکنجے میں ہے آج ہمارے معاشرے میں جو بدبختیاں جو فقر وفاقہ یا جو پریشانیاں ہم دیکھتے ہیں یا جو غربت ہم دیکھتے ہیں  اسکی بنیادی وجہ یہی طبقاتی نظام ہے ۔طبقاتی نظام میں امیر، امیر تر بنتے جائے اور غریب، غریب تر بنتے جائے چونکہ ہمارے سماج ہمارے معاشرے میں یہ طبقاتی نظام جو موجود ہے اس کی بنیاد رکھنے والا کون ہے؟قرآن فرما رہا ہے: ان فرعون علا فی الارض؛ اس نظام کی بنیاد رکھنے والا فرعون ہے یہ ایک فرعونی میراث ہے نظام طبقاتی  فرعونی میراث ہے تو اسلام میں اسکا کوئی تصور نہیں ہے اسلام ایک عادلانہ معاشرے کا قیام وجود میں لاتا ہے تو یہی وجہ ہے کہ آج کل ہم کہتے ہیں کہ بیت المال میں کتنے پیسے ہیں؟ لیکن یہ سیرت علوی کے مخالف ہے چونکہ اس علوی دور کےلئے سب تڑپتے ہیں  امیر المومنین بیت المال کو جاڑو دینے کے بعد گھر تشریف لے جاتے تھے یعنی جو کچھ آجاتا خرچ کرتے ہم تو زخیرہ اندوزی کرتے ہیں  البتہ ذخیرہ اندوزی کے دو طریقے ہیں  ایک معنوی ایک مادی ایک کی تعریف ہے دوسرے کی مذمت ہے اور یہ صدقہ معاشرے میں مساوات قائم کرنے کےلئے ہے اس صدقے میں جو حکمت پروردگار ہے ہمیں اسکو درک کرنے کی ضرورت ہے ہم جو صدقہ دیتے ہیں تو اسکی کیا اہمیت ہے؟ ایک اہمیت یہ ہے کہ اسکی پرورش خود پروردگار کرتا ہے اس سے بڑھ کر اسکی اہمیت کےلئے ہم کیا بیان کرسکیں گے اور ایک اہمیت امام سجاد علیہ السلام بیان فرماتے ہیں یہ صدقہ اس محتاج کے ہاتھ میں جانے سے پہلے خدا کے ہاتھ میں جاتا ہے اگر ہم صدقہ دے تو فخر سے دے اور خدا کا شکر ادا کرکے دے دیکھو اسلام میں جو عمل صالح ہے اسکی سرعت ہمارے تصور سے بھی پہلے ہے اس عمل میں کیا سرعت ہے تو مولا فرماتے ہیں  صدقہ بندے کے ہاتھ میں جانے سے پہلے خدا کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے  اتنی سرعت ہے اور برکت کتنی ہے کہ خدا خود اسکی پرورش کرے اور صدقے کے کیا آثار ہیں؟ معصوم فرماتے ہیں: صدقہ وہ شیء ہے کہ اگر خدا کے نام پر دے تو صاحب صدقہ سے اٹل اجل کے علاوہ موقتی موت کو ٹال دے بہت سارے قصے آپ انبیاء کے دور میں سنیں گے اور بہت سارے ایسے قصے سنیں گے کہ پوری گاڑی میں سب لوگ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے مرجاتے ہیں  لیکن ایک بندہ بچتا ہے اسے کچھ بھی نہیں ہوتا دراصل صدقہ یہ ضمانت دے کہ صاحب صدقے کو اجل موقت میں اسے نجات ملے گی  اسی وجہ سے کہا صدقہ، سرا وعلانیہ دو۔ صدقہ کیسے دیں گے قرآن کہہ رہا ہے فی السراء والضراء صدقہ دینے کے لئے دولت کی شرط نہیں ہے ظرفیت کی شرط ہے انسان کے پاس اگر ظرفیت ہو تو فقیر ہوکر بھی خدا کی راہ میں صدقہ دے دیتا ہے اگر ظرفیت نہ ہو تو سب کچھ ہونے کے باوجود قارون بن کے بیھٹتا ہے اسلام کہتا ہے خرچ کردو مشکلات اور گرفتاری کے وقت۔
 اگر آپ نظام صدقے کو بحال کریں گے تو معاشرے سے غربت چلی جائے گی اور معاشرے اچانک آنے والی موت سے محفوظ رہے گا اور اسکے علاوہ صدقہ دینے والے کی ستر بیماریوں کو خدا اٹھا لیتا ہے اور اسکے علاوہ صدقہ دینے والے سے ستر قسم کے بلاوں کو خدا اٹھا لیتا ہے آج کل کرونا یا وبا ہے یا بلا ہے یا بندوں کی طرف سے بلا ہے تو اس بلا کو ٹالنے کےلئے ہمیں صدقہ دینے کی ضرورت ہے  تو نظام طبقاتی کو ختم کرنے کےلئے خدا نے سورہ مبارکہ معارج میں والذین فی اموالھم حق معلوم للسائل والمحروم فرمایا۔پروردگار مومنین کی تعرف فرماتا ہے کہ مومن معاشرے میں ایک ستون کی طرح ہے جس معاشرے میں مومن ہو پروردگار اس معاشرے کو عذاب سے بچاتا ہے اس معاشرے میں اپنی عنایتیں اپنی برکتیں اپنی رحمتیں اور اپنا فضل وکرم نازل فرماتا ہے تو دراصل مومن کا وجود یہ فیض الہی کا ایک پیکر ہے تو مومن اور مسلمانوں کے مال میں حق معلوم ہے جب حقوق کی باتیں آجائے تو ہم یا والدین کی طرف جاتے ہیں  یا اپنے گھر کی طرف۔ یا جو زیادہ سخی ہوتو اس کی توجہ رشتہ داروں کی طرف جاتی ہے لیکن یہاں پر اسلام معاشرے کی بات کر رہا ہے کہ پورے معاشرے میں ایک طبقہ ہے کہ جس کا ہماری دولت، ہماری ثروت اور ہمارے اموال میں انکا حق معلوم ہے تو وہ کون لوگ ہیں جنکے حقوق ہم پر ہیں تو پروردگار ارشاد فرما رہا ہے والذین فی اموالھم حق معلوم للسائل والمحروم یہاں پر پروردگارعالم معاشرے کے دو طبقے کی معرفی کر رہا ہے آج کل ہم معاشرے میں کیوں گرفتار ہیں؟پریشان ہیں؟ تو دراصل ان حقوق کی عدم ادائگی کی وجہ سے۔ ایک طبقہ سائل ہے سائل اسے کہا جاتا ہے جو مانگے ہم جب راستے میں جاتے ہیں تو لوگ سوال کرتے ہیں کیا ہم ہر مانگنے والے کو دیں؟ قرآن نے یہ نہیں کہا کہ آپ ان پر تحقیق کرکے دے بلکہ اللہ نے مطلقا فرمایا ہے کہ للسائل کہا ہمیں اسکے بیگراونڈ میں جانے کی ضرورت نہیں ہے جب اس نے اپنی عزت کا معاملہ کیا اور اپنی عزت ہتھیلی پہ رکھ کے آپ سے مانگ رہا ہے تو آپ دے چونکہ آپکا معاملہ اللہ سے ہے کہ اللہ نے کہا مانگنے والوں کو دے چونکہ آپ اسکو دے کر امر الہی پر عمل کر رہا ہے تو اس میں آپکو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ روایتوں میں آیا ہے۔
 کہ قیامت کے دن یہی مانگنے والا جسے مانگ رہا ہے اسکی سواری بن جائے قیامت کا دن پریشانیوں کا دن ہے مشکلات کا دن ہے ہر ایک دوسرے کو دیکھ کے بھاگتا ہے لیکن یہ قیامت کے دن آپکے سامنے آکر تمہارا قرضہ اتارے گااسی وجہ سے کہا آپکے مال میں مانگنے والوں کا حق ہے اگر مانگنے والے کو ہم دے تو احسان چڑھا کر نہ دے بلکہ اسکا حق سمجھ کر دے ایک مرتبہ اگر ہم حق سمجھ کر دے تو یہ قرآن پر عمل ہے اگر احسان جتاکر دے یہ لا تبطلوا الصدقاتکم بالمن والاذی کا مصداق ہے احسان اٹھا کر دے اور دوسرا طبقہ محروم کا ہے محروم طبقہ ہمارے معاشرے میں باعزت لوگ ہیں  جن کے چولے تو نہیں جلتے لیکن وہ اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہیں وہ عزت نفس کے مالک ہوتے ہیں  انکی صفت:  یحسبھم الجاھل اغنیاء من التعفف ہے۔جاھل لوگ انکو دولتمند سمجھتے ہیں  انکی پاکدامنی کی وجہ سے، عفت کی وجہ سے، جہاں عزت نفس مجروح ہوجائے اسی وجہ سے اسلام ہمیشہ یہ تاکید کرتا ہے کہ دینے والا ہاتھ مانگنے والے ہاتھ سے بہتر ہے اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے تو اسلام کہتا ہے ہمیشہ دینے والا بن جاو لینے والا نہ بنو تو ہمارے مال میں دو طبقوں کا حق ہے یہ آیت معاشرے کی بات کر رہی ہے ہمارے رشتہ داروں کی بات نہیں کر رہی۔ دیکھو اسلام میں کتنی وسعت ہے اسلام ہم فکر ہونے کی قید کو اٹھالیتا ہے اپنی پارٹی اور اپنا ہونے کی قید کو اٹھالیتا ہے بلکہ اسلام کہہ رہا ہے انکے مال میں مانگنے والے کا حصہ ہے اور محروم کا اس میں مذہب کی کوئی قید و شرط نہیں ہے ۔
محروم وہ طبقہ ہے جو مانگتا نہیں ہے لیکن نہ مانگنے کی وجہ سے وہ حق ساقط نہیں ہوتا بلکہ گردن پر باقی رہتا ہے ۔

جاری ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .